”بند کمرے کا انتہائی پڑھا لکھا دانشور“: لینن بمقابلہ بھگوڑا کاؤتسکی

یہ 1918ء کا زمانہ ہے اور نوزائیدہ روسی سوویت جمہوریہ کو حملوں، تخریب کاری اور بغاوت کا سامنا ہے۔ شاہ پرست، جاگیردار، سرمایہ دار اور سامراجی، روسی مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی فتح پر آگ بگولہ ہیں۔ وہ اسے کچلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

فروری میں، جرمن قیصر کی فوج کے 53 ڈویژنز مشرقی محاذ پر تباہی مچاتے ہوئے ایک ہفتے میں 150 میل روسی علاقے پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

جنوب میں، زار کے جرنیلوں کی قیادت میں رضا کار فوج دہشت گردی کی مہم کا آغاز کرتی ہے۔ قریب ہی، منشویک برطانوی سامراجیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ باکو میں ایک سوویت مخالف آمریت قائم کریں۔

مئی میں، روس کے اندر موجود چیکو سلوواک فوجی دستہ ہتھیار اٹھاتا ہے اور شہروں اور ریلوے پر قبضہ کر لیتا ہے۔

ستمبر میں، بالشویک مخالف قوتیں سوویت جمہوریہ کے خلاف ایک سائبیرین عبوری حکومت قائم کر لیتی ہیں۔ اس حکومت کو برطانوی سامراجیوں کی حمایت حاصل ہے، جو وسطی ایشیا اور ایسٹونیا میں حملے بھی شروع کر دیتے ہیں۔

جولائی میں، دو بائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابی (SRs) جو بظاہر بالشویکوں کے حلیف ہیں، جرمن سفیر کو قتل کر دیتے ہیں تاکہ روس پر مزید جرمن حملے کو بھڑکایا جا سکے۔ بعد ازاں بائیں بازو کے سوشلسٹ انقلابی ماسکو میں بالشویکوں کے خلاف بغاوت برپا کر دیتے ہیں۔

سامراجیوں اور ردِ انقلابیوں کے جبڑوں میں گھری سوویت جمہوریہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔

یہ آگ اور موت کا منظر ہے، پرانی دنیا اور نئی دنیا کے درمیان ایک عظیم الشان معرکہ۔ اسی منظر میں ایک ”بند کمرے کا دانشور“ جس کا نام کارل کاؤتسکی ہے، بڑے اطمینان سے داخل ہوتا ہے۔

کاؤتسکی کبھی ایک نہایت معزز مارکسی نظریہ دان ہوا کرتا تھا۔ کچھ لوگ اسے ’مارکسزم کا پوپ‘ کہتے تھے۔ خود لینن نے کاؤتسکی سے بہت کچھ سیکھا تھا۔

مگر جنگ کے آغاز پر، کاؤتسکی جرمن سامراج کی مخالفت کرنے میں نا کام رہا اور بعد میں صرف عوام کے دباؤ سے مجبور ہو کر جرمن جنگی مقاصد کے خلاف سامنے آیا۔ 1918ء تک وہ عوام کو اقتدار میں لانے پر بالشویکوں پر کھلے عام تنقید کر رہا تھا۔ طبقاتی کشمکش میں اس نے قافلہ بدل لیا اور اس وجہ سے لینن نے اپنے سابق استاد کو ’بھگوڑا‘ قرار دیا۔

لیکن یہ منحرف کوئی سخت گیر دائیں بازو کا سرمایہ دار نہیں تھا۔ اس کی غداری ایک قانونی، تذبذب کے شکار لبرلزم کی شکل میں تھی۔

کاؤتسکی 1918ء میں روس میں طبقاتی جدوجہد کے آگ اور موت کے کھیل کو دیکھتا ہے اور خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ”ہم اس سب کے بجائے ایک مہذب بات چیت کیوں نہیں کر سکتے؟“ وہ پوچھتا ہے، ”جمہوریت کا کیا ہو گا؟ قانون کی حاکمیت کا کیا ہو گا؟“

”یہ تمہاری غلطی ہے“ کاؤتسکی روس کے مزدوروں اور کسانوں سے کہتا ہے، ”تمہیں شاہ پرستوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کو نکالنے کی بجائے ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہیے تھا۔ اب تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے اور اس لڑائی کو جنم دیا ہے۔“

یہ لبرل طبقے کا صدیوں پرانا مؤقف ہے۔ وہ عوام پر حکمران طبقے کے ظلم و ستم کی شکایت تو کرتے ہیں، لیکن جب عوام اس کے خلاف لڑتے ہیں تویہ تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور موجودہ نظام سے چمٹ جاتے ہیں۔ ان کی فطری حالت بے کار شکوے شکایتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی ایسی طبقاتی جدوجہد کی مذمت کرتے ہیں جو ان کی سطحی تنقید سے آگے بڑھ جائے۔

کاؤتسکی اپنے لبرل خیالات کو مارکسی اصطلاحات کا لبادہ پہنا کر پیش کرتا ہے اور ”پرولتاریہ کی آمریت“ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کرتا ہے، جو در حقیقت بالشویکوں پر حملہ ہے۔ اگر کاؤتسکی کے موقف کو عوامی حمایت ملتی تو اس کا مطلب روسی انقلاب کا خاتمہ؛ سرمایہ داری اور جاگیرداری کی بحالی؛ اور مزدوروں اور کسانوں کے خلاف خونریز انتقام ہوتا۔

یہ نوزائیدہ سوویت جمہوریہ کے خلاف جاری جنگ میں ایک نیا نظریاتی محاذ کھول دیتا ہے۔ جہاں ٹراٹسکی فوجی محاذ پر سرخ فوج کی تشکیل اور کمان سنبھالے ہوئے ہے، وہیں لینن اس نظریاتی جنگ کی قیادت کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ اس کا پمفلٹ ”پرولتاریہ کا انقلاب اور بھگوڑا کاؤتسکی“ اسی محاذ کا تباہ کن جواب ہے۔

جمہوریت اور آمریت

جمہوریت کاؤتسکی کے لیے سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ لینن اور بالشویکوں نے انقلاب کے دوران جمہوریت کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ انہوں نے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا ہے، اور بعض لوگوں کے جمہوری حقوق کو محدود کر دیا ہے۔

کاؤتسکی کا کہنا ہے کہ سچے سوشلسٹ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ اگر انقلاب واقعی عوامی ہوتا تو تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لینن کا کہنا ہے کہ ان دلائل کے مطابق کاؤتسکی یا تو ”انتہائی پڑھا لکھا بند کمرے کا دانشور“ ہے یا ”ایک معصوم دس سالہ سکول کی بچی“، اور دونوں ہی انقلاب کی جدوجہد میں کوئی خاص مددگار نہیں ہیں۔

لینن یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ صرف لبرلز ہی جمہوریت کے عمومی تصور کی بات کرتے ہیں۔ کمیونسٹ ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے ہیں: کس طبقے کے لیے جمہوریت؟

ویسے بھی، جمہوریت کی بنیادیں، ایتھنز اور روم کی قدیم غلام ریاستوں میں رکھی گئیں۔ آج بھی یونیورسٹی کے طلبہ قانون کی حکمرانی کے اصولوں کی ابتدائی مثال کے طور پر رومن قانون پڑھتے ہیں۔ اس وقت جمہوریت، آزادی، اور حقوق سب موجود تھے، لیکن صرف غلام مالکان کے لیے۔

13ویں صدی کے انگلینڈ میں، ٹیکس کے مسائل پر جمہوری رائے کا حق حاصل کرنے کے لیے، جاگیرداروں نے بادشاہ کے خلاف جدوجہد کی۔ میگنا کارٹا نے 25 جاگیرداروں کی ایک کونسل قائم کی تاکہ وہ اس حق کا استعمال کر سکیں۔ ظاہر ہے، ان کے مزارعوں کو ووٹ کا کوئی حق نہیں ملا۔ یہ جاگیرداری حکمران طبقے کے اندر جمہوریت تھی، تاکہ وہ محنت کش عوام پر اپنی آمریت کو بہتر طریقے سے نافذ کر سکیں۔

17ویں اور 18 ویں صدی کے بورژوا انقلابات نے ایسی جمہوریتیں قائم کیں جن میں ووٹ دینے کا حق جائیداد کی ملکیت پر مبنی تھا۔ یہ جاگیرداری کے مقابلے میں ایک بہت بڑا قدم تھا، لیکن یہ جزوی اور محدود جمہوریت تھی۔ یہ امیروں کے لیے جمہوریت اور غریبوں کے لیے آمریت تھی۔

آج کی سرمایہ دارانہ جمہوریتیں بھی اسی طرح ادھوری ہیں۔ وہ ہمیں ایسی جماعتوں کے درمیان انتخاب کا موقع دیتی ہیں جن کی اہم پالیسیاں امیر عطیات دہندہ اور طاقتور لابی کرنے والوں نے طے کی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ کا صدر بننا ناممکن ہے جب تک کہ آپ ایک کروڑ پتی نہ ہوں، اور آپ کے درجنوں ارب پتی دوست نہ ہوں۔

سال 2000ء سے، امریکی ایوان نمائندگان میں 93 فیصد نشستیں وہ امیدوار جیتے ہیں جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے زیادہ پیسہ تھا۔ یہ امیروں کے ووٹ ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں اور ہم سب کے لیے یہ آمریت ہے۔

لینن وضاحت کرتا ہے کہ پرولتاری انقلاب ایک ایسا نظامِ جمہوریت متعارف کراتا ہے جو محنت کش طبقے اور کسانوں کے لیے ہوتا ہے۔ یہ سوویتوں پر مبنی ہوتا ہے، جو پورے روس میں کارخانوں، کام کی جگہوں، محلوں اور کھیتوں کو چلانے کے لیے قائم ہونے والی مزدوروں اور کسانوں کی کونسلیں تھیں۔

عوام اپنے لیے خود معاشرے کو چلا رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا حکمران طبقہ بنا ہے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی طفیلی اقلیت کی بجائے معاشرے کی اکثریت پر مبنی ہے۔

یہ سچ ہے کہ اس چھوٹی اقلیت کو جو حقوق حاصل تھے انہیں نئے حکمران طبقے یعنی محنت کشوں نے محدود کر دیا ہے۔

اب سوویتوں میں جمہوریت کارخانوں اور کسان کمیٹیوں سے شروع ہوتی ہے، جس میں مالکوں اور جاگیرداروں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ مالکوں کے لیے ووٹ کا حق محدود ہوا ہے مگر کروڑوں لوگوں کے لیے حقیقی اور عملی جمہوریت کے طور پر اسے بے پناہ وسعت دی گئی ہے۔

مالکوں کے جمہوری حقوق سلب ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اخبارات اور اجلاس گاہیں جو کبھی ان کی ملکیت تھیں، عوامی ملکیت بن چکی ہیں۔ لیکن جمہوریت اور آزادیئ اظہار کے سب سے بنیادی عناصر اب ان لاکھوں لوگوں کی دسترس میں ہیں جو پہلے ان تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔

سب سے بڑھ کر، سرمایہ دار اپنی منافع خوری کے لیے اب محنت کشوں اور کسانوں کا استحصال نہیں کر سکتے۔ وہ اب کرائے وصول نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان لوگوں کو بے گھر کر سکتے ہیں جو کرائے ادا کرنے کی سکتے نہیں رکھتے۔ اور وہ اب لاکھوں لوگوں کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے جنگوں میں مرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہی سب تو وہ حقوق تھے جو انہیں اپنے طبقے کی حکمرانی کے دوران حاصل تھے، لیکن اب نہیں ہیں۔

یہ ہے پرولتاری آمریت کا منظر نامہ۔ یہ اعلان کرتی ہے کہ بعض چیزیں جو شاید سرمایہ دارانہ آمریت کے تحت قانونی تھیں، اب ان کی مزید اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ محنت کش طبقے کو نقصان پہنچاتی ہیں اور یہ کہ اگر تم انہیں دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرو گے، تو تمہیں روکنے کے لیے ہم طاقت کا استعمال کریں گے۔

یہ آمریت معاشرے کی وسیع اکثریت کے جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے ہے: محنت کشوں اور کسانوں کے، ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف جو انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔

تشدد

کاؤتسکی سوال اٹھاتا ہے کہ یہ سب کچھ مہذب طریقے سے، پارلیمانوں سے، آئین ساز اسمبلیوں سے اور شائستہ مباحثوں کے ذریعے کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ طاقت کا ’آمرانہ‘ استعمال، آخر کیوں؟

جواب یہ ہے کہ طبقاتی جدوجہد کرکٹ کا کھیل نہیں ہے جس میں شفاف قواعد اور غیر جانبدار امپائر ہوں۔

یہ ایک جنگ ہے، یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ قواعد کون لکھے گا اور امپائر کون منتخب کرے گا۔

کاؤتسکی جب یہ اصرارکرتا ہے کہ بالشویکوں کو ”قانون کا پاسدار ہونا چاہیے“ تو وہ اصل میں یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ محنت کشوں اور کسانوں کو ان حدود کے اندر رہنا چاہیے جو ان پر سامراجیوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور شاہ پرستوں نے عائد کی ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ محنت کشوں اور کسانوں کے پاس احتجاج کا حق ہے، لیکن اقتدار کا نہیں ہے۔ مختصراً، وہ بورژوازی کے دلائل کو ان کے لیے پیش کرتا اور اسے مارکسزم کا نام دیتا ہے۔

کاؤتسکی روسی عوام پر انقلاب کے دفاع میں پُر تشدد ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ لیکن اس تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟

اکتوبر 1917ء کی بغاوت خونریز معاملہ نہیں تھا، کم از کم سینٹ پیٹرز برگ میں تو بالکل بھی نہیں۔ حتیٰ کہ دوسرے شہروں میں بھی، تشدد کی ابتدا محنت کشوں نے نہیں کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زار کے جرنیل اور غیر ملکی سامراجی تھے جنہوں نے ایک پُر امن انقلاب کو خونریز خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں کوئی بھی حکمران طبقہ اپنی طاقت اور مراعات کو بغیر لڑائی کے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ جب اس کی مراعات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، تو سرمایہ دار طبقہ نقاب اتار دیتا ہے اور اس کے اصلی دانت سب کے سامنے آ جاتے ہیں اور وہ کسی مہذب سمجھوتے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ اسے دشمن پر واضح فتح چاہیے ہوتی ہے۔

چنانچہ 1918ء میں وہ روس کے عوام کے خلاف بغاوتیں، حملے اور ہولناک دہشت گردی کی مہم کو منظم کر رہے ہیں۔ کیا ہم محنت کشوں اور کسانوں سے یہ توقع رکھیں کہ وہ مسکراتے ہوئے ایک اور تھپڑ کے لیے دوسرا گال آگے کر دیں؟ ایسی تجویز درمیانے طبقے کا خجالت زدہ نام نہاد بورژوا امن پسند ہی پیش کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔

جب کوئی آپ کے سر پر بندوق رکھے ہوئے ہو، تو آپ تہذیب اور تعقل کا دامن نہیں تھام سکتے۔ کاؤتسکی کی تجویز پر عمل کرنا سیدھی سیدھی خود کشی ہے۔ انقلاب کو پرولتاری آمریت کے آہنی ہاتھوں سے جواب دینا ہو گا۔

جیسا کہ ٹراٹسکی نے بعد میں اشارہ کیا، آپ محنت کش طبقے کے تشدد کو حکمران طبقے کے تشدد کے برابر نہیں ٹھہرا سکتے۔ غلام کو زنجیروں میں رکھنے کے لیے غلام مالک کا تشدد، اخلاقی طور پر، اس تشدد سے مختلف ہے جس سے غلام ان زنجیروں کو توڑتا ہے۔

یہ سب کچھ یا تو کاؤتسکی نے سمجھنے کی زحمت نہیں کی یا جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا۔ وہ انقلابِ روس کو 1918ء میں در پیش حالات اور طبقاتی بنیادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جمہوریت اور تشدد کے بارے میں عمومی پیرائے میں باتیں کرتا ہے۔

آج کل کے بھگوڑے

آج کے لبرلز اکثر وہی دلائل پیش کرتے ہیں جو کاؤتسکی نے دیے تھے۔ لینن کا جوابی ارتداد آج بھی اتنا ہی قابلِ عمل ہے جتنا کہ 100 سال پہلے تھا۔ اس کا پمفلٹ پڑھنا نئے انقلابیوں کے لیے لازمی ہے۔

آج بہت سے خود ساختہ بائیں بازو اور ٹریڈ یونین کے رہنما ایسے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے کی بات کرتے ہیں، مگر جب عمل کا وقت آتا ہے، تو طبقاتی جدوجہد کے لیے ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔

ہمیں ان نئے بھگوڑوں کے خلاف لینن کی طرح واضح اور شاطر ہونا ہو گا۔ کمیونسٹ طبقاتی جدوجہد کو آخری حد تک لڑنے کے لیے تیار اور پُر عزم ہیں۔ ہمارا مقصد محنت کش طبقے کی جانب سے اقتدار پر قبضہ اور اسے برقرار رکھنا ہے۔ ہم ادھورے اقدامات یا مفاہمتوں پر نہیں رکیں گے۔ ہم عالمی سوشلسٹ انقلاب کے لیے لڑ رہے ہیں۔